
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت اور ایف بی آر کو کس چیز پر زیادہ توجہ دینا ہے۔ سیلز ٹیکس کلیکشن یا انکم ٹیکس فائلرز کی جانب
ایف بی آر کے مطابق صرف 41 ہزار کے قریب لوگ سیلز ٹیکس رجسٹرد ہیں اور ان میں سے شاید سارے ایکٹیو بھی نہیں ہیں۔ کیا حکومت اور ایف بی آر کو یقین ہے کہ سیلز ٹیکس کی مکمل کلیکشن ان کو مل رہی ہے کیونکہ کنزیومر سیلز ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے ریٹیلر کو، ریٹیلر ادائیگی کرتا ہے ہول سیلر یا ڈسٹری بیوٹر کو اور ڈسٹری بیوٹر براہ راست سیلز ٹیکس رقم فیکٹری یا مینوفیکچررز جو ادا کر دیتا ہے۔ اس میں نہ تو ریٹیلر کو کوئی فائدہ ہے نہ ہول سیلر کو اور نہ ہی ڈسٹری بیوٹر کو کیونکہ انکو کوئی بھی پراڈکٹ کمپنی سے سیلز ٹیکس سمیت ملتی ہے اور انکا کام صرف سپلائی چین کو چلانا ہے اور انکا مارجن بھی سب کے سامنے ہوتا ہے جو کہ بالکل معمولی ہوتا ہے خاص طور پر ڈسٹری بیوٹر اور ہول سیلرز تو ہزاروں کی پراڈکٹ میں چند روپے ہی منافع کما پاتے ہیں۔ جتنی مشکل سیلز ٹیکس کی ڈاکومینٹیشن ہے وہ پاکستان کے 80 فیصد سے زائد ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز سمجھنے سے ہی عاری ہیں۔ ڈسٹری بیوٹر کا منافع اور سیلز بالکل کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی۔ اگر ایف بی آر کو شک ہے کہ سیلز ٹیکس پورا وصول نہیں ہوتا تو وہ سورس پر کنٹرول کریں جو سیلز ٹیکس وصول کرتا ہے کیونکہ اس سورس کے پاس ساری لیگل ٹیم، اکاؤنٹنٹ اور اتنا سرمایہ اور ورکنگ ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات کو ہینڈل کر رہا ہے اور کر سکتا ہے۔ ایک ڈسٹری بیوٹر اور ہول سیلرز کو آسان حل اس کے ٹرن اوور پر ٹیکس لگایا جائے اور کمپنیوں کو پابند کیا جائے اور انکی اسکروٹنی کی جائے کہ وہ کیش ادائیگی پر سپلائی نہ دیں۔ ڈسٹری بیوٹرز کا باقاعدہ ایگریمنٹ ہوتا ہے کمپنی کے ساتھ جس میں اسکا شناختی کارڈ نمبر اور سارا ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ کمپنی کو ادا کی گئی رقم اور اس سے حاصل کردہ اسٹاک پر منافع پر فکس ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے یا پھر ان کے ٹرن اوور پر انکا فائنل ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ کمپنی یہ ٹیکس خود کاٹ کر بھی جمع کروا سکتی ہے یا پھر سالانہ مکمل سیل کا ریکارڈ ڈسٹری بیوٹر کو مہیا کر دے جس پر ڈسٹری بیوٹر اپنا منافع کی شرح یا ٹرن اوور پر ٹیکس ادا کر سکے اور اپنی بینک کے ذریعے ادائیگی کے متوازی اپنی مکمل خرید و فروخت کا ریکارڈ دے سکے۔ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی سیل کا ریکارڈ مینج کرنے کے لئے کمپنی کو پابند کیا جائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح وہ ڈسٹری بیوٹرز پر اپنا ایس اینڈ ڈی سافٹ ویئر لازمی لگائیں اور ساری سیل کا ریکارڈ خود سیلز ٹیکس ریٹرنز میں ایف بی آر کو مہیا کریں کیونکہ ڈسٹری بیوٹرز نہ تو اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ وہ ان پٹ اور آؤٹ پٹ کے جھنجھٹ کو سمجھ سکیں، ودہولڈنگ ٹیکس اور ایکسٹرا ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو سمجھ سکیں اور نہ اتنا سرمایہ رکھتے ہیں کہ اکاؤنٹنٹ اور وکلاء کی لاکھوں روپے فیس سالانہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے قصبہ میں گھی و چینی یا صابن سرف کا ایک چھوٹا ڈسٹری بیوٹر جس کی ماہانہ سیل 10 لاکھ روپے ہوگی تو اسکا زیادہ سے زیادہ منافع 10 سے 15 ہزار روپے ماہانہ ہے وہ کہاں سے سافٹ ویئر بنوائے، اکاؤنٹنٹ رکھے اور وکلاء کو فیسیں دیں اور اگر قابل ٹیکس آمدن نہیں کما سکا تو ٹرن اوور پر ٹیکس دے کر خود خودکشی کر لے۔ اسی طرح پاکستان کے 80 فیصد سے زائد ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز اسی کٹیگری میں شامل ہیں۔ جو چھوٹے علاقوں میں بیٹھے ہیں اور انکی ماہانہ آمدن اگر بہت زیادہ ہے تو 30 سے 40 ہزار روپے ہیں۔ اب اس انکم میں اتنے اخراجات اور کم پڑھے لکھے طبقہ کے لئے اتنی ڈاکومینٹیشن کرنا ناممکن ہے جس سے بیروزگاری کی ایک نئی وبا پھیل جائے گی۔ لوگ مرنے پر مجبور ہونگے
اس لئے یہ سیلز ٹیکس رجسٹریشن کا معاملہ صرف امپورٹرز اور سورس مینوفیکچررز پر رکھیں اور ساری سیلز ٹیکس ریٹرنز انکی لائبلٹی میں شامل کی جائیں۔ کوئی بھی چیز جو امپورٹ ہوتی ہے وہ مکمل ریکارڈ میں ہوتی ہے اب امپورٹرز سے جو مینوفیکچررز وہ را میٹریل خریدتا ہے اس سے مکمل اسکی پروڈکشن یونٹ کی کپیسٹی پر سیلز ٹیکس وصول کیا جائے اور مینوفیکچررز کو پراڈکٹ کوڈ جاری کیا جائے جو وہ اپنی پراڈکٹ پر پرنٹ کرے اور اس کی بنا پر اس سے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے تا کہ سیلز ٹیکس کی چوری روکی جا سکے اور مارکیٹ میں جعلی پراڈکٹس کا خاتمہ بھی ہو سکے۔ ڈسٹری بیوٹر اور ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی سیل کا ریکارڈ کمپنی جو سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے اس سے حاصل کیا جائے اور ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کو رجسٹریشن سے معافی دی جائے
جب ہر ڈسٹری بیوٹر،ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی ٹیکس ریٹرن براہ راست ادائیگی کے ساتھ حکومت کے خزانہ میں جائے گی تو ٹیکس وصولی کے ٹارگٹ ہر صورت پورے ہو جائیں گے لیکن خدارا کارپوریٹ ٹیکس نظام کو پبلک سیکٹر نظام پر نافذ کر کے چھوٹے ڈسٹری بیوٹرز، ہول سیلرز کے کاروبار تباہ مت کریں وہ اس قابل اور اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ اتنی مشکل ڈاکومینٹیشن کر سکیں اور نہ اتنا سرمایہ رکھتے ہیں کہ اتنے اخراجات سے اکاؤنٹنٹس رکھ سکیں اور وکلاء کو لاکھوں روپے فیس ادا کر سکیں
ریٹیلرز کے لئے آسان اور سادہ فہم نظام لایا جائے۔ اسکو ٹرن اوور کی بجائے اسکے بزنس کو متعلقہ ٹریڈ یونین کے ذریعے
ریٹیلرز کو باقاعدہ بزنس لائسنس جاری کیا جائے اور ہر دوکان پر یہ لائسنس لگانا لازمی قرار دیا جائے اور دوکان کے شٹر اور بورڈ پر ٹیکس نمبر لکھنا لازمی قرار دیا جائے اور وہ دوکان کے حجم، اسٹاک، بزنس والیم، مالکان کی تعداد اور ملازمین کی تعداد پر مبنی معلومات پر فکس ٹیکس عائد کیا جائے جیسے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی طرح ہر فوڈ بزنس پر فکس ٹیکس عائد کیا گیا ہے
ایک سادہ پیپر پر چالان فارم جاری کیا جائے جو وہ تاجر براہِ راست بینک میں جمع کروا کر اپنی فکس ٹیکس ذمہ داری پوری کرے۔
چھوٹا پرچون فروش دوکاندار نہ تو بینکس میں اکاؤنٹ کھلوا سکتا ہے جس سے وہ اپنی ٹرانزیکشن شو کر سکے
اور اگر شناختی کارڈ کے ذریعے اسکے ٹرن اوور کا اندازہ لگایا جائے گا تو پھر ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے لئے وہی ڈاکومینٹیشن، وکلاء پینل اور اکاؤنٹنٹس والا عذاب آ جائے گا جس سے ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز پہلے ہی اذیت کا شکار ہیں اور پچھلے 2 ماہ سے انکے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔ اور مزید تباہی کی جانب کاروبار جا رہے ہیں۔ اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریٹیلرز کے لئے انکم ٹیکس وصولی کا میکانزم شہر، تحصیل، ضلع اور میٹرو پولیٹن سطح پر متعلقہ ٹریڈ یونین سے حاصل کیا جائے۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اس طرح ہر گلی اور محلہ کا دوکاندار انکم ٹیکس سرکل میں بھی آ جائے گا اور ٹیکس کلیکشن بھی الحمدللہ اپنے ٹارگٹ تک پہنچے گی
کیونکہ اگر ریٹیلرز کا شناختی کارڈ کے ذریعے ریکارڈ مرتب کرنا ہے تو ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو ساری ڈاکومینٹیشن کرنا پڑے گی اور یہ ڈاکومینٹیشن اتنی مشکل ہے کہ کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ماہر وکلاء ہی اسے مینج کر سکتے ہیں
ڈسٹری بیوٹرز کو تو صرف ایک یا دو یا جتنی کمپنیوں کا وہ ڈسٹری بیوٹر ہے وہ ریکارڈ رکھنا ہو گا لیکن ایک ہول سیلر کے لئے ہر اس پراڈکٹ کا ریکارڈ رکھنا پڑے گا جس پر سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور ہول سیلرز کو بھی اسی طرح ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنا پڑے گا جس طرح ڈسٹری بیوٹرز پر کمپنی کا ٹیکس کاٹنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور ہر سروس فراہم کرنے والے کا بھی ٹیکس کلیکٹ کرنا پڑے گا جیسے ٹرانسپورٹ والے کے کرائے سے ٹیکس کاٹنا ہو گا۔ پچاس ہزار سے اوپر تمام سیل کا ریکارڈ بذریعہ بینک کیا جا رہا ہے۔ مطلب ایک گاؤں والے کے اردگرد 15 سے 20 کلو میٹر کوئی بینک نہیں ہے تو پہلے وہ دوسرے شہر بینک اکاؤنٹ کھلوانے آئے گا۔ پھر اس شہر بینک پیسے جمع کروانے آئے گا اور جب کسی دوسرے شہر خریداری کرنے جائے گا تو اس سے کوئی انجان چیک ہی نہیں لے گا اور اس طرح فراڈ کا بھی بہت زیادہ خطرہ بڑھ جائے گا۔ ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کا سرمایہ خطرے میں پڑے گا۔ جو کسی بھاری نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اب وکلاء کے پینل کی بات کریں تو آپکو ایک مثال دیتا ہوں کہ ضلع ننکانہ صاحب میں 3 تحصیلیں ہیں اور پورے ضلع ننکانہ صاحب میں صرف 2 وکلاء ہیں جو انکم ٹیکس کا کام کرتے ہیں۔ جسکا مطلب یہ ہوا کہ ضلع ننکانہ صاحب کی تین تحصیلوں اور ہر قصبے کےہر ڈسٹری بیوٹر اور ہول سیلر کو شیخوپورہ، لاہور یا فیصل آباد سے وکیل کی خدمات حاصل کرنا ہو گی اور ہر ماہ اپنی سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے کے لئے ان سے بار بار رابطہ کرنا پڑے گا اور ان سے ملاقات کے لئے ہزاروں روپے کرایہ لگا کر جانا پڑے گا۔ ٹیکس کلیکشن تاجر پہلے بھی ادا کرتے ہیں۔ جہاں سے سیلز ٹیکس چوری ہوتا ہے وہاں سے سختی کریں اور خرید و فروخت کرنے والے تاجر کو ودہولڈنگ ایجنٹ، اکاؤنٹنٹ اور وکیل مت بنائیں۔ کیونکہ وہ یہ ریکارڈ کب اور کیسے مرتب کروائے گا اور کاروبار کس وقت کرے گا اور نہ ہی اتنا سرمایہ ہے کہ پہلے کمپنی کا ودہولڈنگ ٹیکس اپنی جیب سے ادا کر کے بعد میں ان سے لے اور نہ ہی اس قابل ہے کہ رجسٹرڈ افراد کو فروخت کی صورت میں اپنا ودہولڈنگ ٹیکس ایڈوانس کی صورت میں کٹواتا رہے اور اسی حساب کتاب میں خود ذہنی مریض بن جائے اور حکومت ڈاکومینٹیشن کرنے چکر میں تاجر اور عوام کو تباہی اور بیروزگاری کی جہنم میں دھکیل دے
www.globaltaxconsultants.pk
#Global_Tax_Consultants #Lahore
Leave Your Comments